Skip to main content

جرح کیسے کریں

جرح کیسے کریں؟! (یَنگ لائرز کے لیے)

#فنِ_جرح







۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گواہان پر جرح کرنے سے پہلے ہمیں جرح کا بنیادی مقصد/مقاصد پتا ہونا چاہیے۔ جو کہ درج ذیل ہو سکتے ہیں

1: مدعی/مثتغیث کے کیس کو اس میں مٹیریل کنٹراڈکشنز لاتے ہوے غلط ثابت کرنا

۔۔۔۔ مٹیریل کنٹراڈکشن 

اس کی تعریف کہیں نہیں کی گئی(کم از کم میری نظر سے نہیں گزری) لیکن عام طور پر وہ کنٹراڈکشن مٹیریل کنٹراڈکشن کہلاتی ہے جو وقوعہ/ ملزم کے خلاف پائے جانے والے کسی اہم ثبوت میں پائی جائے۔ 

مثال: "ایک کیس میں پولیس گشت پر تھی، انہیں اطلاع ملی کہ f8 مرکز میں ایک بندہ قتل ہو گیا ہے"

اب پولیس تھانے سے گشت پر کس وقت نکلی؟ کون کون ساتھ تھا؟ کس گاڑی میں تھے؟

قتل کس وقت ہوا؟ (عینی شاہدین سے پوچھا جانے والے سوال)

پہلے تین سوالوں میں پائی جانے والی کنٹراڈکشن کرابریٹری تو ہے لیکن وہ مٹیریل نہیں۔۔۔۔ کیوں کہ وہ مین مدعا کے متعلق نہیں۔ انہیں ہیومین ایرر کہہ کر درگزر کیا جا سکتا ہے!!

جبکہ چوتھے سوال میں کنٹراڈکشن آنے پر وقوعہ ہی مشکوک ہو جاتا ہے اور بندہ بری ہو سکتا ہے۔

اس لیے کیس میں مٹیریل کنٹراڈکشنز لانے کی تیاری کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2: اگر ہو سکے تو انہی گواہان سے اپنی پلی ایڈمٹ کروانا

۔۔۔۔ ہمارے ہاں اکثر بہت سے کیسز سچ کی بجائے جھوٹ پر "بنائے" جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ان کیسز میں مدعی/مثتغیث آپ کے حق میں پائے جانے والے کچھ اہم پوائنٹس بیان نہیں کرتا۔۔۔۔ لیکن وہ اتنے قوی ہوتے ہیں کہ با آسانی ایڈمٹ کروائے جا سکتے ہیں۔

مثال: ایک کیس میں ملزم اغواء ہوا۔ ہائیکورٹ میں رِٹ فائل کرنے پر اس پر جھوٹا کیس ڈال کر گرفتار کر لیا گیا۔ تفتیشی نے ہائیکورٹ پیش ہو کر بتا دیا کہ فلاں کیس میں یہ گرفتار ہے۔

اب تفتیشی کا یہ فرض تھا(بمطابق صغراں بی بی کیس... pld 2018 SC 595) کہ وہ اغواء کے ایلیگیشن پر بھی تفتیش کرے اور فائنل رپورٹ میں اس کو سچ یا جھوٹ بتائے۔ جبکہ اس نے اس حوالے سے ایک لفظ بھی نہ لکھا۔

چونکہ رِٹ وغیرہ موجود تھی۔ جس میں تفتیشی کی حاضری بھی تھی۔ لہذا با آسانی وہ یہ مان گیا کہ اغواء کی پلی کو چھپایا ہے۔ اس سے تفتیشی کی میلافائڈی ظاہر ہو گئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

3: کچھ کیسز(مثلا نابغان کی کسٹڈی یا جن میں تزکیۃ الشہود شرط ہے) میں گواہ کا کریکٹر امپیچ کرنا

۔۔۔۔انتہائی ضروری نہ ہو تو یہ مت کریں۔ اور اگر کریں تو سڑرونگ شہادت کی بنیاد پر ہی کریں۔ صرف الزامات نہ لگائیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس مقصد کے لیے درج ذیل کام کریں

1: ۔مکمل کیس (فائل) آپ کی فنگر ٹپس پر ہو

---- کیس کی مکمل فائل کاپی کروائیں، بشمول وارنٹ، پرچہ سزا وغیرہ۔۔۔۔ کوئی ایک بھی پیج مِس نہ ہو۔ 

۔۔۔۔ پیج نمبرنگ کریں

۔۔۔۔ FIR, پھر MLC/پوسٹ مارٹم رپورٹ، مرگ رپورٹ چالان، ریکوری میموز اور پھر باقی فائل کا ایک ایک پیج پرھیں۔

۔۔۔۔ اگر آپ کو تجربہ ہے تو دو سے تین مرتبہ پڑھ کر کیس سمجھ آ جائے گا۔ سمجھ آنے سے مراد یہ ہے کہ کیس کے ہر پیج کا لنک آپ کو پتہ ہو کہ یہ کیوں لگایا گیا ہے۔۔جب تک یہ پتا نہ چلے بار بار پڑھیں

۔۔۔ اس کے بعد اپنے کلائنٹ کی سٹوری کو سمجھیں۔ جائے وقوعہ کا جا کر مشاہدہ کریں۔ کیس جس بارے میں ہو اسے سمجھیں۔

مثلاً اگر چرس کے بارے میں ہے تو چرس کی اقسام اور اس حوالے سے اہم ججمنٹس پڑھیں۔ 

اگر فائر آرم انجری ہے تو فائر آرم، انجری ٹائپس، بلیکنگ، برنگ، اِنٹری وونڈ اور ایگزٹ وونڈ وغیرہ کو سمجھیں

۔۔۔۔ اب دوبارہ فائل کو پڑھیں ۔۔کورٹ کی اجازت سے پولیس فائل کو پڑھیں۔۔۔ اگر آپ کا تجربہ ہے تو دو، چار مرتبہ پڑھ کر ہر حصہ میں پائی جانے والی(یا جو آپ نے پیدا کرنی ہے) کمی/لیکونا/کنٹراڈکشن آپ کو نظر آنے لگے گی۔ اسے ہائی لائٹ کرتے جائیں۔ آخر میں کام آئے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2: گواہان کی تقسیم(سیٹ بنانا)

۔۔۔۔ اس کام کے لیے گواہان کا ایک ٹیبل بنا لیں۔ ہر گواہ کے سامنے اس کی ممکنہ گواہی کا لکھ لیں

۔۔۔۔ کسی ایک پوائنٹ یا ثبوت کے متعلق گواہان کو سیٹ کے گواہ کہا جاتا ہے۔ مثلاً وقوعہ کے عینی شاہدین، گرفتاری کے گواہ، ریکوری کے گواہ وغیرہ۔ 

اکثر ان کی جرح ایک ہی دن کی جاتی ہے۔

 فوجداری کیس میں پراسیکیوشن نے خود گواہان کو سیٹ میں تقسیم کیا ہوتا ہے۔ لیکن آپ خود سے بھی ضرور چیک کریں۔

مثال: ایک منشیات کے کیس میں FIR کے مطابق کانسٹیبل زید بوقت مبینہ گرفتاری ملزم موجود تھا۔ لیکن اسے اضافی سمجھتے ہوے وقوعہ کا گواہ نہ بنایا گیا۔ بعد ازاں مبینہ طور پر ملزم کی نشاندہی پر مزید منشیات کی ریکور کی گئی۔ زید اس ریکوری کا گواہ ہے۔

اب پراسیکیوشن زید کو صرف دوسری ریکوری تک گواہ بنائے گی۔ اس کی تیاری بھی دوسری ریکوری تک ہو گی۔ لیکن آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ زید پہلے وقوعہ کا بھی گواہ ہے اور اسے کیسے استعمال کرنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

3: کیس(یا سٹوری) کی مختلف حصوں میں تقسیم

۔۔۔۔ ہر کیس میں بہت سے سٹَیپس اور ثبوت ہوتے ہیں۔ اپنے خلاف پائے جانے والے ہر ثبوت کو الگ سے تقسیم کریں۔ کیوں کہ ممکنہ طور پر آپ نے ہر ثبوت میں کنٹراڈکشن پیدا کرنی ہے۔ ہر پوائنٹ یا ثبوت کے متعلق الگ تیاری کریں۔

مثال:

ایک نامعلوم ملزم قتل کیس میں ملزم گرفتار ہوے، ان کی شناخت پریڈ ہوئی، پستول/ آلہ قتل برآمد ہوا

اس کی تقسیم درج ذیل پوائنٹس میں ہو سکتی ہے:

۔۔ وقوعہ قتل

۔۔ عینی شاہد

۔۔ قتل کی خبر

۔۔ جائے وقوعہ، نقشہ وغیرہ

۔۔ اگر کچھ خول وغیرہ ریکور ہوے

۔۔ رپورٹ FIR

۔۔ مرگ رپورٹ

۔۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ

۔۔ ریکوری میموز

۔۔ گرفتاری ملزم

۔۔ شناخت پریڈ

۔۔ ریکوری پسٹل

۔۔ رپورٹ فرانزک آلہ قتل

۔۔ 161 کے بیانات

کیس کو تقسیم کر کے ہر پوائنٹ پر الگ سے تیاری کریں

۔۔۔۔۔۔۔۔

4: کون سے سوالات کرنے ہیں

یہ مرحلہ سب سے اہم ہے۔ اس میں خاص احتیاط سے چلیں۔ وہ سوالات جو کرنے ہیں انہیں آپ درج ذیل میں تقسیم کر سکتے ہیں

4.1: وہ سوال جس کا جواب آپ جانتے ہیں(اور ثابت کر سکتے ہیں) اور اس جواب سے حاصل ہونے والے مقصد کو جانتے ہیں.

اگر آپ نے فائل اچھی طرح سمجھی ہے، پراسیکیوشن اور اپنے کلائنٹ کا موقف اچھی طرح جانتے ہیں تو ہر کیس میں کم از کم 90% سوالات وہ ہوتے ہیں جن کے جوابات آپ جانتے ہیں۔ 

مثال: میں نے ایک کیس میں مجسٹریٹ صاحب کو شناخت پریڈ پر سوال پوچھا کہ "کیا ملزمان(دو کس) کی شناخت پریڈ جوائنٹلی(یعنی ایک ہی مرتبہ دو لائنز بنا کر) کروائی گئی یا الگ الگ؟"

اس کا جواب جوائنٹلی تھا جو کہ مجھے میرے کلائنٹ سے پتا تھا اور ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ بھی اس طرف اشارہ کر رہا تھا۔

جبکہ اس جواب کو حاصل کرنے کا مقصد شناخت پریڈ کی حیثیت ختم کرنا تھا۔ کیونکہ جوائنٹ شناخت پریڈ کی کچھ حیثیت نہیں

(شناخت پریڈ پر ڈیٹیل ججمنٹ کے لیے کنور انور علی کیس دیکھیں PLD 2019 SC 488)

10٪ وہ سوالات ہوتے ہیں جن کا جواب تو آپ شاید نہیں جانتے لیکن ان سوالات کو بذریعہ ان سوالوں کے کور کریں جو آپ جانتے ہیں۔

مثال: آپ نہیں جانتے کہ

پولیس گشت کے لیے تھانے سے کب نکلی؟

لیکن آپ یہ جانتے ہیں کہ کورٹ فائل اور پولیس فائل میں روزنامچہ، جس میں گشت پر نکلنے کا اندراج ہو، کی کاپی نہیں لگی۔ 

لہذا سوال روزنامچہ کا پوچھیں وقت کا نہیں

یاد رہے کہ جس سوال کا ممکنہ جواب آپ نہیں جانتے وہ جوا ہوتا ہے۔ اس سے پرہیز ہی بہتر ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔

4.2: وہ سوال جس کے ممکنہ دو جواب آپ جانتے ہیں

مثال: 

ایک کیس میں "محمد اجمل" دو ریکوری میموز کا گواہ تھا۔ جبکہ ایک ریکوری میمو پر نام "اجمل خان" لکھا تھا۔

اب اس کا اصل نام دو میں سے جو بھی ہو، ایک ریکوری میمو جعلی نکلتا ہے۔۔۔ جس سے تفتیشی جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور omnibus پرنسپل کے تحت بندہ بری ہو سکتا ہے۔

(پرنسپل omnibus چیک کرنے کے لیے خضر حیات کیس دیکھیں PLD 2019 SC 527)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

5: کون سے سوالات نہیں کرنے

5.1: جس کا جواب آپ نہیں جانتے

5.2: جس پوائنٹ پر آپ نے سوال کیا اور مرضی کا جواب مل گیا۔ اس پوائنٹ پر دوسرا سوال مت کریں

مثال: ایک کیس میں دو الگ الگ ریکوری میمو تھے، ایک کورٹ فائل میں ہاتھ سے لکھا، جبکہ دوسرا پولیس فائل میں کمپیوٹرائزڈ۔ تفتیشی پہلے سوال پر مان گیا کہ دونوں اسی کیس کے ہیں۔

اتنا کافی تھا، اس پر اور سوال نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔

جب اس سے مزید وضاحت طلب کی گئی کہ ان میں تو چیزیں ہی مختلف لکھی ہیں تو وہ کمپیوٹرائزڈ سے مکر گیا کہ یہ کسی اور نے ڈالا ہے

۔۔۔

5.3: جو ثبوت آپ کے خلاف تھا لیکن گواہ اِن چیف میں مِس کر گیا۔ اس پر سوال مت کریں

مثال: ایک دہشتگردی کیس 7ATA/302ppc کی اِن چیف میں تفتیشی پسٹل ریکوری کا بتانا بھول گیا۔ دو ملزمان میں سے ایک میرا جبکہ دوسرا "سینئر ایڈوکیٹ سپریم کورٹ" کا کلائنٹ تھا۔

میں نے بطور عزت سینئر ایڈوکیٹ صاحب کو موقعہ دیا کہ وہ پہلے جرح کر لیں۔ اور ساتھ ہی درخواست کی کہ پسٹل پر کچھ سوال نہ کریں۔

لیکن انہوں نے اس سے پوچھا کہ پسٹل ریکوری نہیں لکھوائی نا؟!!!

پھر اس نے کھل کر لکھوائی۔۔۔۔میں چیختا رہا کہ جج صاحب میرا سوال نہیں تھا میری حد تک نہ لکھیں، جج صاحب مسکراتے رہے اور لکھتے رہے۔

۔۔۔۔

5.4: ایڈمشن بذریعہ سجیشن

یاد رہے کہ سول کیس میں مدعی کے ہر ہر ثبوت کو بذریعہ سجیشن رِیبَٹ کرنا ہوتا ہے۔ اگر نہ کریں تو ایڈمیشن کہلاتا ہے۔

مثال: اگر مدعی کہتا ہے کہ میں نے گاڑی خریدنے کی مد میں دس لاکھ نقد ادا کیا۔۔۔!

 تو جرح کے آخر پر سپیسیفکلی سجیشن دی جائے گی کہ یہ جھوٹ/غلط ہے کہ میں گاڑی خریدنے کی مد میں کوئی رقم/دس لاکھ ادا نہ کیا ہے۔

۔۔۔۔۔

جبکہ فوجداری کیس میں اس کی ضرورت نہیں۔

(اس کے لیے آسیہ مسیح کیس PLD 2019 SC 64 دیکھیں)

لیکن سجیشن دیتے ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہی سجیشن آپ کے خلاف ایڈمیشن بھی بن سکتی ہے۔

مثال: گاڑی والی مثال میں اگر میں حاشیہ گواہ کو سجیشن دوں کہ "یہ غلط ہے کہ جب دس لاکھ ادا کئے گئے اس وقت آپ موجود تھے"

اس کو وہ ڈینائی کرے گا لیکن

اس سجیشن میں میں اس گواہ کی موجودگی تو ریبٹ کر رہا ہوں لیکن دس لاکھ ایڈمٹ کر رہا ہوں۔

اس لیے احتیاط کریں۔

👈 میری ذاتی رائے کے مطابق ایڈمشن بذریعہ سجیشن کا تصور بھی صرف سول معاملات میں درست ہے کریمینل میں نہیں۔ 

لیکن آصف سعید خان کھوسہ صاحب نے درج ذیل دو کریمینل کیسز میں اپلائی کیا ہے۔ لہذا احتیاط کریں

خدیجہ صدیقی کیس(جو کہ انتہائی کمزور فیصلہ ہے)

 (PLD 2019 SC 261)

امجد علی بنام سرکار 

(PLD 2017 SC 661)

۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments

Popular posts from this blog

کورونا کی دوسری لہرآ گئی ہے۔ اب سے بند مقامات پرہر قسم کی شادی کی تقریبات پر پابندی،تمام شہریوں کے لیے ماسک نہ پہننے پربڑا  جرمانہ ہوگا😠

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (این سی او سی) نے ملک میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کر لیے۔ این سی او سی کے بیان کے مطابق کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، حیدر آباد، گلگت، مظفر آباد، میرپور، پشاور، کوئٹہ، گوجرانوالہ، گجرات، فیصل آباد، بہاولپور اور ایبٹ آباد کورونا سے زیادہ متاثرہ شہروں میں شامل ہیں جہاں پابندیاں بڑھائی جارہی ہیں جن کا اطلاق 31 جنوری 2021 تک ہوگا۔ بیان میں کہا گیا کہ فیس ماسک کے حوالے سے گلگت بلتستان ماڈل اپنایا جائے گا، یعنی ماسک نہ پہننے والوں پر 100 روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا اور انہیں فوری طور پر 3 ماسک دیے جائیں گے۔ این سی او سی کے فیصلے کے مطابق بند مقامات پر شادیوں کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی ہے، کھلے مقامات پر شادی تقریبات میں ہزار سے زائد افراد کی شرکت ممنوع ہوگی، بند مقامات پر شادیوں کے انعقاد پر پابندی کا اطلاق 20 نومبر سے ہوگا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (این سی او سی) نے ملک میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر مزید اہم فیصلے کر لیے۔ این سی او سی کے بیان کے مطابق کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، ملتان، حی

منسا موسیٰ کی وجہ شہرت

منسا موسیٰ کو سب سے زیادہ شہرت اس کے سفرِ حج کی وجہ سے ہوئی جو اس نے 1324ء میں کیا تھا۔ یہ سفر اتنا پرشکوہ تھا کہ اس کی وجہ سے منسا موسیٰ کی شہرت نہ صرف اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئی بلکہ تاجروں کے ذریعے یورپ تک اس کا نام پہنچ گیا۔ اس سفر میں منسا موسیٰ نے اس کثرت سے سونا خرچ کیا کہ مصر میں سونے کی قیمتیں کئی سال تک گری رہیں۔ اس زمانے میں غالباً مغربی افریقا کے اس علاقے میں سونا بہت زیادہ پایا جاتا تھا جہاں منسا موسیٰ کی حکومت تھی۔ حج کے اس سفر میں موسیٰ کے ہمراہ 60 ہزار فوجی اور 12 ہزار غلام تھے جنہوں نے چار چار پاونڈ سونا اٹھا رکھا تھا۔ اس کے علاوہ 80 اونٹوں پر بھی سونا لدا ہوا تھا۔ اندازہ ہے کہ موسیٰ نے 125 ٹن سونا اس سفر میں خرچ کیا۔ اس سفر کے دوران وہ جہاں سے بھی گزرا، غربا اور مساکین کی مدد کرتا رہا اور ہر جمعہ کو ایک نئی مسجد بنواتا رہا۔ منسا موسیٰ مکہ معظمہ میں ایک اندلسی معمار ابو اسحاق ابراہیم الساحلی کو اپنے ساتھ لایا جس نے بادشاہ کے حکم سے گاد اور ٹمبکٹو میں پختہ اینٹوں کی دو مساجد اور ٹمبکٹو میں ایک محل تعمیر کیا۔ مالی کے علاقے میں اس وقت پختہ اینٹوں کا رواج نہیں

تقسیمِ جائیداد

 جہاں تقسیمِ جائیداد کسی زرعی زمینوں کی ہو وہاں سول کورٹ کو سماعت کا اختیار نہیں بلکہ یہ صرف ریونیو عدالت کے دائرہ اختیار میں ہے   2021 CLC 612 Very Important 0.XVI, Rr.1 & 2--See Civil Procedure Code (V of 1908) O.XIII, Rr.1 & 2. [Balochistan} 798 R.18---Punjab Land Revenue Act (XVII of 1967), ----0.XX, S.172(2)---Specific Relief Act (I.of 1877), Ss.42 & 9---Suit for declaration and partition with respect to agricultural property--- Exclusion of jurisdiction of Civil Courts in matters within the jurisdiction of Revenue Officers---Scope---Property, if same was agricultural in nature, then remedy for partition thereof lay solely with Revenue Hierarchy, and Civil Court lacked jurisdiction in such matter.